گر مشکلوں میں اپنا گزارہ نہیں رہا |
وہ بھی تو اب مسیحا ہمارا نہیں رہا |
الفت پہ اعتبار جو باقی نہیں اسے |
میری بھی سحر کا وہ ستارہ نہیں رہا |
عیش و نشاط کی نہ اگر زندگی رہی |
یاروں کا بھی ہمارے سہارا نہیں رہا |
سانسوں پہ اختیار بھی اپنا نہیں ہے اب |
کچھ دھڑکنوں پہ دل کی اجارہ نہیں رہا |
آنکھوں کے خشک ہو گئے آنسو بہے سبھی |
طغیانیوں کا جیسے کنارا نہیں رہا |
شب غم گزار کے بڑی شاہد ہیں زندہ ہم |
بس اور کیا کریں کوئی ، چارہ نہیں رہا |
معلومات