گر مشکلوں میں اپنا گزارہ نہیں رہا
وہ بھی تو اب مسیحا ہمارا نہیں رہا
الفت پہ اعتبار جو باقی نہیں اسے
میری بھی سحر کا وہ ستارہ نہیں رہا
عیش و نشاط کی نہ اگر زندگی رہی
یاروں کا بھی ہمارے سہارا نہیں رہا
سانسوں پہ اختیار بھی اپنا نہیں ہے اب
کچھ دھڑکنوں پہ دل کی اجارہ نہیں رہا
آنکھوں کے خشک ہو گئے آنسو بہے سبھی
طغیانیوں کا جیسے کنارا نہیں رہا
شب غم گزار کے بڑی شاہد ہیں زندہ ہم
بس اور کیا کریں کوئی ، چارہ نہیں رہا

0
67