| لمحے ماضی سے بلائے جائیں |
| ناز پھر ان کے اٹھائے جائیں |
| چاک پر پھر سے رکھا جائے دل |
| یار کے نقش بنائے جائیں |
| اس سے پہلے کہ گذر جائے دن |
| رنگ تتلی کے چرائے جائیں |
| نام بدنام نہ ہو عاشق کا |
| زخم سینوں کے دکھائے جائیں |
| لوٹ کے آئے کرن سورج کی |
| پردے زنداں سے ہٹائے جائیں |
| موت کی راہ نہ دیکھے دلبر |
| یوں مسافر نہ ستائے جائیں |
| عشق پر زور نہیں ، چلتے بس |
| اب سبق اور نہ پڑھائے جائیں |
| ہو ختم جس سے سفر تاروں کا |
| چاند وہ شب میں سجائے جائیں |
| پیار کی خوشبو جہاں پر مہکے |
| شہر شاہد ! وہ بسائے جائیں |
معلومات