| ہو کے دیپک بھی نبھائی ہے ہوا سے میں نے |
| رابطے توڑے ہیں سب اپنے قضا سے میں نے |
| گل کی پتی سے کٹایا ہے جگر بھی اپنا |
| زخم الفت کے کریدے ہیں دوا سے میں نے |
| دل نے دیکھے ہیں کئی دشت وفا کے دھوکے |
| پایا ہے لطف جفاؤں کا سزا سے میں نے |
| بات دل کی بھی ذرا غور سے سن کے اکثر |
| آگ کی پیاس بجھائی ہے قبا سے میں نے |
| مبتلا خود کو صلیبوں پہ رکھا ہے شب بھر |
| مانگی ہے زندگی یوں تیری خدا سے میں نے |
| اب فقیروں سے کہیں کیسے حقیقت اپنی |
| لب جلائے ہیں محبت میں دعا سے میں نے |
| یار کے کوچے میں دیوار سے لگ کے شاہد |
| کھولا ہے درد کا در اپنی رضا سے میں نے |
معلومات