بدلا جو ہم سے چاند ستارے بدل گئے
اے دوست تیرے بعد نظارے بدل گئے
ایسے لگا بچھڑ کے بہاریں بدل گئیں
جگنو مری زمیں کے ٹھکانے بدل گئے
تھی چشم تر نے میری کہانی کہی لکھی
کیسے چراغ بجھ گئے شانے بدل گئے
نسبت نہیں ہے لالہ و گل سے انہیں کوئی
چہرے دھلے تو سارے سنوارے بدل گئے
اک حوصلہ نہیں کہ کریں کس سے ہم گلہ
ساحل کے ساتھ ساتھ کنارے بدل گئے
ہستی ہماری خود ہی فنا کی دلیل تھی
پلکوں پہ آ کے اشک بھی سارے بدل گئے
شاہد ملے رقیب کی ہم بات کیا کریں
دنیا کی بھیڑ میں یار پرانے بدل گئے

0
6