| شیشے کے بنے دیر و حرم ٹوٹ رہے ہیں |
| کم ظرف شریفوں کے بھرم ٹوٹ رہے ہیں |
| شہرت ہو کہ قوت ہو ، حکومت ہو کہ دولت |
| ہاتھوں سے ممولوں کے علم ٹوٹ رہے ہیں |
| صحرا کے مسافر تجھے معلوم نہیں ہے |
| وحشت میں سرابوں کے قدم ٹوٹ رہے ہیں |
| تھا جن پہ یقیں دیکھ ہمیں حد سے زیادہ |
| لفظوں سے سجے بت وہ قلم ٹوٹ رہے ہیں |
| ہر روز بدلتی ہیں کئی رنگ بہاریں |
| دستار بچاتے ہوئے دم ٹوٹ رہے ہیں |
| ہم جن کی امیدوں میں جیا کرتے تھے شاہد |
| وہ سامنے آنکھوں کے صنم ٹوٹ رہے ہیں |
معلومات