چڑھا کے چاک پہ مورت نئی بنا دے وہ
کیا ہے جرم وفا کا کڑی سزا دے دو
نہیں یقین مجھے بخت وقت حاکم پر
کسی صلیب پہ بے نام ہی چڑھا دے وہ
کھڑا ہوں دشت کے طوفان میں اکیلا میں
تہوں میں ریت کی بے شک مجھے چھپا دے وہ
ہوں الفتوں کا مسافر نہیں سکوں دل کو
لگا کے پہلو سے اپنے وہیں سلا دے وہ
رہا ہے ڈوب اجالا گھرے اندھیروں میں
چراغ شام کو ہی قبر پر جلا دے وہ
لکھا ہوں حرف میں شاہد پھٹی کتابوں کا
جہاں بھی دیکھے مجھے پیار سے مٹا دے وہ

0
6