چاک دامن گو اک غریب کا ہے
من کا رشتہ مگر قریب کا ہے
منتظر آج بھی ہے جس کا شجر
گل اثاثہ وہ عندلیب کا ہے
آشنا سر ہے جس کا برسوں سے
سامنے در اسی رقیب کا ہے
دل میں بیتے دنوں کی یادیں ہیں
سفر کیسا مرے نصیب کا ہے
میری آنکھوں میں میرے سپنے ہیں
خواب دیکھا کسی صلیب کا ہے
اس جہاں سے گزر چکا ہوں میں
قصہ لکھا یہی ادیب کا ہے
میرا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے
دکھ ہوا میں گئے حبیب کا ہے
حکمتوں کی پھٹی کتابوں میں
ذکر شاہد بڑے طبیب کا ہے

0
42