| سر سے نشہ جو عشق کا ، یارو اتر گیا |
| کافر محبتوں سے ہی دیکھو مکر گیا |
| دستور یار پیار میں طے کر سکا نہ کچھ |
| دستار تو ملی اسے پر ، میرا سر گیا |
| اس کو خبر کہاں ہے کہ کیسے گزر گئی |
| جتنی بساط تھی مری ، اتنا میں کر گیا |
| میرے تباہ دل نے کئے سو جتن مگر |
| ہر حیلہ کیا ہجوم میں ، بس بے اثر گیا |
| سچ بولنے کی شرط تھی پوری نہ ہو سکی |
| پی کے یوں جام زہر کا سو میں بکھر گیا |
| کہتے تھے جا کے یار ، کریں گے تلاش ہم |
| اک ڈھونڈنے میں خود کو زمانہ گزر گیا |
| طوفاں تھا موج موج میں شاہد چھپا ہوا |
| سپنے بہا کے میں بھی تہی ہاتھ گھر گیا |
معلومات