گر فسانوں میں فسانہ ہوتا
جینے کا اپنے بہانہ ہوتا
یاد کرتے نہ اسے پھر ہم بھی
بس میں گر انکو بھلانا ہوتا
ایک امید ہمیں بھی ہوتی
شہر میں گر جو ٹھکانہ ہوتا
پیار کا بھی کوئی کرتے دعویٰ
جگ کو گر ہم نے دکھانا ہوتا
تذکرے ہونٹوں پہ اپنے ہوتے
پیار کا گر جو زمانہ ہوتا
ہم ہواؤں کو بناتے دشمن
گر دیا ہم نے جلانا ہوتا
کچے رنگوں سے کہانی لکھتے
گر نہ پھر وعدہ نبھانا ہوتا
چوٹ کھاتے نہ محبت کی بھی
دکھ سے گر خود کو بچانا ہوتا
کشتیاں ساتھ کئی لاتے ہم
ہاتھ شاہد جو چھڑانا ہوتا

0
14