بڑھے چراغ کے اب لو ، ہوا سے کچھ تو کہو
بہت اداس ہے محفل صبا سے کچھ تو کہو
حریم ناز میں دیکھو کمی ہے دلبر کی
بلا کے لاؤ اسے خوش ادا سے کچھ تو کہو
تڑپ رہے ہیں کھلے بازو چاہ میں اس کی
ملے وہ ہم سے گلے دل ربا سے کچھ تو کہو
عطا کرے وہ بہاریں ہمیں جوانی کی
رکھے وہ دور قضا کو خدا سے کچھ تو کہو
شکن نہ آئے کبھی زلف عنبریں پہ کوئی
وہ لے نہ جان ہماری حیا سے کچھ تو کہو
کہے ہمیں وہ محبت میں زندگی اپنی
وہ اتنا چاہے ہمیں بے وفا سے کچھ تو کہو
کڑی ہیں عشق کی راہیں پتہ ہے شاہد کو
ہلا دے عرش و فلک کو دعا سے کچھ تو کہو

0
17