ہنس کے مقتل سے گزر جائیں ہم
گر ترے دل میں اتر جائیں ہم
دو قدم ساتھ تو دے اور میرا
اس سے پہلے کہ بکھر جائیں ہم
روک لو ہم کو اگر جانے سے
شہر میں تیرے ٹھہر جائیں ہم
پاس کچھ دیر رہو میرے گر
آپ سے مل کے نکھر جائیں ہم
ہم سا واپس نہ کوئی آئے گا
تم کہو کیوں نہ مکر جائیں ہم
یوں نہ گزرے گی غموں کی شب
اب رہیں زندہ کہ مر جائیں ہم
راس دوری نہیں آتی ہم کو
آؤ بانہوں میں سنور جائیں ہم
عمر گزری ہے سجاتے جس کو
آئی ہے شام تو گھر جائیں ہم
اور ہو جائے نہ اندھیرا شاہد
تھام کے چاند نگر جائیں ہم

0
8