جانے کیا مجھ سے خطا ہو گئی ہے
زندگی ، دیکھ خفا ہو گئی ہے
ایک دن تو اسے ہونا تھا جدا
پھر یہ کیوں آج جدا ہو گئی ہے
ٹوٹی کشتی سی بنا بیٹھا ہوں میں
تیز دریا کی ہوا ہو گئی ہے
کھل نہ پائے کہیں پھر ایک کلی
شوخ یوں باد صبا ہو گئی ہے
جس کی خاطر میں جلاتا تھا دیا
میری دشمن وہ وفا ہو گئی ہے
قسمتوں کا لکھا ہے گر تو ، سنو
کیوں یہ رسوائی سزا ہو گئی ہے
دل سے اٹھتی ہے یہ شاہد کے صدا
دنیا کیوں ساری خدا ہو گئی ہے

0
12