فیصلہ دیکھ آسمان کا ہے
وقت مجھ پر جو امتحان کا ہے
خوف ہی خوف ہر طرف ہے مکیں
حوصلہ جاں میں پر چٹان کا ہے
آس ٹوٹی نہیں ابھی بھی مری
سایہ اک سر پہ مہربان کا ہے
یوں تو میں دم بدم زمین پہ ہوں
پر ارادہ کسی اڑان کا ہے
ہے بدن گر عقوبتوں میں گھرا
لفظ نکلا مگر کمان کا ہے
سر قلم ہو یا جان جائے مری
جوش مقتل میں آن بان کا ہے
یاد شاہد کرے گی دنیا کبھی
درد کچھ ایسا داستان کا ہے

9