جیسے ساقی ، گنہ ، آرام سے مل لیتے ہیں |
ایسے ہم رات کسی شام سے مل لیتے ہیں |
خط لکھے یار کو بن جاتے ہیں خوشبو جب |
لفظ ماضی کے بھی گمنام سے مل لیتے ہیں |
کچھ خیالات ہمیں آتے ہیں جو چھاؤں کے |
اس بہانے لگے الزام سے مل لیتے ہیں |
بزم بھی چاند سجا لیتا ہے شب تاروں کی |
جگنو بھی گردشے ایام سے مل لیتے ہیں |
خوش محبت ہے کہ ہر رسم نبھا دی جگ کی |
خود سے اب ملنے کو ہم جام سے مل لیتے ہیں |
چھوڑ دی گوشہ نشینی کی جو عادت دل نے |
لوگ ، غم خوار ہمیں کام سے مل لیتے ہیں |
منسلک ہو کے ترے نام سے ہم بھی شاہد |
ایک انجام سے ، بدنام سے مل لیتے ہیں |
معلومات