سب سجا کے مچان بیٹھے ہیں
دوست پکڑے کمان بیٹھے ہیں
جشن برپا ہے چاند تاروں میں
ہار کے ہم جہان بیٹھے ہیں
شہر کا شہر ہی مخالف ہے
اور گرا ہم مکان بیٹھے ہیں
لاکھ دھوکے ہیں کی محبت میں
دے مگر اک زبان بیٹھے ہیں
کیسے کر لیں قبول اس سچ کو
ہم تمہیں اپنا مان بیٹھے ہیں
سوچ ہے یہ بسی خیالوں میں
گل ہمیں کانٹا جان بیٹھے ہیں
دل بظاہر ہے مطمئن شاہد
پر لٹا ہم دکان بیٹھے ہیں

0
63