میری اتنی سی شناسائی ہے
تو خدا ، دل مرا ہرجائی ہے
میں تو دیوانہ ہوا جاتا ہوں
ہر سو رخ یار کا زیبائی ہے
پیار بدنام بہت ہے جگ میں
اس کا انجام بھی رسوائی ہے
پوچھتا ہوں میں جہاں والوں سے
شہر کیوں سارا تماشائی ہے
موت کے بعد مجھے جلنا ہے
جینے کی یہ ہی سزا پائی ہے
مہرباں یوں تو بڑا ہے رب بھی
نظر بس اس کو خطا آئی ہے
عشق کا کھیل عجب ہے سب میں
دیکھ محفل میں بھی تنہائی ہے
مجھ کو ادراک نہیں ہے اس کا
میری قسمت میں جبیں سائی ہے
بحر پایاب نہ سمجھو مجھ کو
مجھ میں شاہد بڑی گہرائی ہے

0
3