| پھول پر اوس کا اک قطرہ سجا دیتے ہو |
| تم ، گلابوں کو مہکنا بھی سکھا دیتے ہو |
| پیار آ جائے جو اپنے ہی کسی بندے پر |
| بھڑکی تم آگ میں جنت کا مزا دیتے ہو |
| درد کے نام سے واقف ہو کہاں مرضی سے |
| آخری تیر بھی ترکش کا چڑھا دیتے ہو |
| تیری مختاری و بے پروائی بیاں ہو کیسے |
| پاؤں میں لا کے ستاروں کو جھکا دیتے ہو |
| تیری مٹی ہے ، ترا چاک ، تو ہی کوزہ گر |
| تم اگر چاہو تو ، سرکار بنا دیتے ہو |
| کہتے ہو کن فیکوں اپنی زباں سے اور پھر |
| دشت ، دریا کے کناروں سے ملا دیتے ہو |
| سوز ، غم ، رنج ، الم سارے مٹا کے شاہد |
| حوصلہ دیتے ہو جینا بھی سکھا دیتے ہو |
معلومات