شب اندھیروں کی مٹا سکتا میں |
یاد ماضی کی بھلا سکتا میں |
دیکھنے کو نہیں باقی کچھ اب |
کاش ! دیپک کو بجھا سکتا میں |
جنکے پیچھے لکھی ہیں تاریخیں |
خط ، وہ تصویر جلا سکتا میں |
کاش ملتی مجھے ہر اک کرچی |
پھر سے تکئے کو سجا سکتا میں |
بھول سکتا میں وہ گزری شامیں |
بات ہر دل کی ، چھپا سکتا میں |
سر پٹکتی ہیں ہوائیں در پر |
کاش ! دروازے پہ آ سکتا میں |
دل دکھاتے ہیں ستارے ، جگنو |
اب نہیں وعدہ نبھا سکتا میں |
خود پسندی مری عادت ٹھہری |
ٹھوکریں اور نہیں کھا سکتا میں |
خاک شاہد کی اڑی ہے جب سے |
دکھ نہیں اپنا بتا سکتا میں |
معلومات