زندہ ہیں محبت میں کسی دار سے لگ کے
زخمی ہیں بڑے ہاتھ چبھے خار سے لگ کے
اٹھتا ہے دھواں من سے ، لہو ایک جگر سے
بے بس ہے زلیخا کہیں دیوار سے لگ کے
الفت ہے کہیں غم کہیں ہے جنموں کا ماتم
کہتی ہے صبا کان میں دلدار سے لگ کے
اک تیشہ ہے فرہاد کا در سنگ گراں بھی
خاموش وفا بیٹھی ہے بیمار سے لگ کے
اک داغ لگایا ہے جو اس درد نے دل پر
رویا ہے بہت یار ، گلے یار سے لگ کے
ہے جان سے پیارا مگر دشمن اسے شاہد
ٹپکی ہیں جو بوندیں طلب گار سے لگ کے

0
46