زندہ ہیں محبت میں کسی دار سے لگ کے |
زخمی ہیں بڑے ہاتھ چبھے خار سے لگ کے |
اٹھتا ہے دھواں من سے ، لہو ایک جگر سے |
بے بس ہے زلیخا کہیں دیوار سے لگ کے |
الفت ہے کہیں غم کہیں ہے جنموں کا ماتم |
کہتی ہے صبا کان میں دلدار سے لگ کے |
اک تیشہ ہے فرہاد کا در سنگ گراں بھی |
خاموش وفا بیٹھی ہے بیمار سے لگ کے |
اک داغ لگایا ہے جو اس درد نے دل پر |
رویا ہے بہت یار ، گلے یار سے لگ کے |
ہے جان سے پیارا مگر دشمن اسے شاہد |
ٹپکی ہیں جو بوندیں طلب گار سے لگ کے |
معلومات