| الفت میں زخم شوخیٔ تحریر بن گئے |
| آنسو وفا میں آپ کی ، تصویر بن گئے |
| قاصد کو دیکھ کے گئی جو سہم سی نظر |
| شاخوں پہ پھول درد کی تفسیر بن گئے |
| خوابوں کی ڈھونڈتے رہے تعبیر ہم مگر |
| ٹوٹے جو سلسلے جڑے تعذیر بن گئے |
| جلتی ہوئی نگاہ میں بجھتے ہوئے دیے |
| ان مفلسوں کے شہر میں تقصیر بن گئے |
| دیکھے تھے کھیل عشق نے قسمت کے جو لکھے |
| کچھ بیڑیاں بنیں ، کئی زنجیر بن گئے |
| آزاد دشمنوں میں کھڑے دوست بھی سبھی |
| تیرو کمان خنجرو شمشیر بن گئے |
| بارش میں پیار کی مرے شاہد ترستے لب |
| کانپے ہیں اس طرح سے کہ تشہیر بن گئے |
معلومات