مجھ پہ الفت کی نظر تو کر دے
رات میں میری سحر تو کر دے
گل کھلا پھر سے کوئی سر مژگاں
چشم مے گوں کو ادھر تو کر دے
ہو میسر ہمیں جس کی خوشبو
کرم اتنا زمیں پر تو کر دے
سوچ لیں بیٹھ کے جی بھر کے تجھ کو
ساتھ سائے کو شجر تو کر دے
اک بسا دے کہیں بستی دل کی
دیکھے سپنوں کو امر تو کر دے
جس میں بس تیری وفا ہو شاہد
وہ مقدر میں سفر تو کر دے

0
46