کچھ ڈوبتے ہوؤں کو سہارا نہیں ملا
طوفاں میں کشتیوں کو کنارا نہیں ملا
امید تھی سبھی کو حقیقت میں چاند سے
سر شام روشنی کو ستارہ نہیں ملا
ہم بھی گلاب دیں گے عوض میں گلاب کے
یہ کہہ کے شخص ہم کو دوبارہ نہیں ملا
سب بجھ گئے چراغ بھی راہوں کو دیکھتے
آنکھوں کو آج تک گیا ، پیارا نہیں ملا
آنسو تھمے رہے بھری پلکوں میں رات بھر
کس سے گلہ ہو ان کو اشارہ نہیں ملا
اپنے مزاج کا بھی تو موسم نہیں کوئی
دل کے لئے بھی درد کا دھارا نہیں ملا
یہ شہر بھی ہمیں کوئی اپنا سا کیوں لگے
شاہد تمہیں تو سکھ بھی تمہارا نہیں ملا

0
12