شب بھی کٹتی نظر نہیں آتی
ان کی جب تک خبر نہیں آتی
زندگی ہے وبال وہ شاید
شام جس کی سحر نہیں آتی
کیسا ہے بے خودی کا عالم یہ
ہوش جو عمر بھر نہیں آتی
جان دیتے ہیں یار پر ہم بھی
موت کیوں چارہ گر نہیں آتی
درد کی ہے سمجھ ہمیں لیکن
دل ربائی مگر نہیں آتی
ڈھونڈنے یار کون اب نکلے
خود سری راہ پر نہیں آثی
آج محرومی دیکھ کے میری
آنکھ کیوں جگ کی بھر نہیں آتی
اس کو آتی ہے بس جفا شاہد
بوئے خون جگر نہیں آتی

0
50