جب جگ کی الفتوں کے ہمیں تجربے ہوئے
آنکھوں سے بہہ گئے کئی دریا رکے ہوئے
اک یاد ان کی دل کو کیا آج آ گئی
بھولی سی داستاں کے سبھی دکھ ہرے ہوئے
کاغذ پہ جل رہا تھا تھکا چاند رات کا
جیسے تھی صبح شام کے غم میں ڈھلے ہوئے
ٹہنی سے گر رہا تھا پھول اس سے بے خبر
ہر زخم زندگی کا ، جو بھی سانحے ہوئے
تھا وقت کا خیال کسے ایسی قید میں
میں سوچتا رہا تجھے بس دیکھتے ہوئے
شاہد کہاں ہے جانتا دل کی حقیقتیں
دنیا کے ربط کو ہے وہ رشتہ لکھے ہوئے

0
73