دشت ، صحرا سراب دیکھے ہیں
ہم نے جلتے گلاب دیکھے ہیں
جینا دشوار ہے ، ہمیں مشکل
وقت اتنے خراب دیکھے ہیں
عشق ناکام ہی سہی لیکن
جام ، ساقی ، شراب دیکھے ہیں
تم قیامت کی بات کرتے ہو
آنکھ نے سب عذاب دیکھے ہیں
آرزو میں حبیب کی اس نے
دن میں بھی خواب دیکھے ہیں
شب کی چلمن سے چاند تاروں میں
سوئے ، جاگے شباب دیکھے ہیں
صاف سے چہرے من نے یاروں کے
بے وفا ، بے نقاب دیکھے ہیں
حوصلے اب نہیں ہیں باقی کچھ
پتھروں کے جواب دیکھے ہیں
در سے تیرے اٹھیں کیا شاہد
ہجر کے اضطراب دیکھے ہیں

0
55