اک نئی آگ میں جلنا چاہے
موم پھر بن کے پگھلنا چاہے
اس سے پہلے ہو جگر بھی زخمی
دل قبا اپنی بدلنا چاہے
منزلیں کھوئی ہیں اسکی ساری
اب حوادث سے نہ لڑنا چاہے
تیز آندھی ہے مقابل اس کے
قول ہر سے وہ مکرنا چاہے
صبح نکلے کوئی رنگیں شاید
ساتھ تاروں کے جو ڈھلنا چاہے
کر کے قربان وہ شہرت اپنی
راہ انجان سی چلنا چاہے
وہ مسافر نہیں اس منزل کا
روز انساں جہاں مرنا چاہے
دشت تنہائی کی خواہش میں اب
زخم سے دریا ابلنا چاہے
اس کو واپس نہ بلاؤ شاہد
بات جگ کی نہ وہ سننا چاہے

0
67