جان سے جاں کو گزرتا دیکھے
وہ بھی تو گل کو بکھرتا دیکھے
چپ کو سمجھے نہ مری لا حاصل
چڑھتے دریا کو اترتا دیکھے
دیکھے آنکھوں میں حسیں وہ دنیا
پھر زمانے کو ٹھہرتا دیکھے
دکھ کی آغوش میں رہ کے شب پھر
صبح کرنوں کو نکھرتا دیکھے
کھول کے بند قبا زلفوں کی
اک حسن وہ بھی مکرتا دیکھے
دیکھے ساکت وہ بدن کو میرے
من کو بس یار کی سنتا دیکھے
ہنس کے دکھ سہہ لیں گے دل کا شاہد
زخم لیکن نہ وہ بھرتا دیکھے

0
7