| پاؤں میں زمیں ، سر پر آسمان رہنے دو |
| الفتوں کے کچھ رشتے درمیان رہنے دو |
| پھیلتی ہوئی وحشت میں زمانے کی دیکھو |
| اپنی ، آنکھوں میں صورت مہربان رہنے دو |
| ساتھ میرے چینخ اٹھتی ہیں گھر کی دیواریں |
| سنگ میرے غم اپنا بے زبان رہنے دو |
| الجھی سی رہی ہے ہم سے سدا محبت یوں |
| ہر گھڑی ہمارا بھی امتحان رہنے دو |
| راستے ہیں سچ کے مشکل بڑے حقیقت میں |
| تم کہانی جھوٹی کی، داستان رہنے دو |
| پڑ نہ جائے ہم کو تفصیل اک گراں اس کی |
| تم چڑھی چلے پر اپنی کمان رہنے دو |
| ہم کو جینے دو اپنے ہی خیالوں میں شاہد |
| دور دنیا سے زندہ خوش گمان رہنے دو |
معلومات