جیسے طوفان ہوں سر سے گزرے
ایسے ہم دل کے نگر سے گزرے
رات تھی وہ بہت ہی مشکل
جس بھی ہم راہ گزر سے گزرے
ہم نہ پہچان سکے چہرے سب
لوگ ہی لوگ نظر سے گزرے
ہر طرف درد تھا ، غم کی دنیا
خوں کا دریا تھا جدھر سے گزرے
تھی ہوا کوئی ، نہ تازہ جھونکا
دشت بے آب و شجر سے گزرے
اک کرن تھی نہ کہیں سورج کی
ہم اندھیروں میں سحر سے گزرے
حال دل کس کو سناتے شاہد
تیر کچھ جب تھے جگر سے گزرے

0
16