مجبور ہے انساں کہیں آقا میں خدا ہے
مغموم ہے دل اور کہیں نوحہ سرا ہے
ہے خاک کے پیکر کا لگا جگ میں تماشا
ہاتھوں پہ سجی خون سے مہکی سی حنا ہے
سورج کی ہتھیلی پہ جلی دل کی تمنا
جسموں پہ کوئی لپٹی ہوئی سرخ قبا ہے
چلتی ہے ہوا درد کی ہر روز جہاں میں
نفرت کی لدی میرے گلستاں کی صبا ہے
لفظوں سے چلاتا ہے کئی سینے پہ نیزے
اسباق وفا کے سبھی دل بھول رہا ہے
اعمال پہ ملتی ہیں ہمیں اب بھی سزائیں
سلطان مرا دیکھ ، ملی میری سزا ہے
افسردہ مری لاش پہ سب اپنے ہیں شاہد
لیکن یہ بتائیں کہاں ، پر میری خطا ہے

0
43