عمر بھر کے کھدیڑ دیتا ہے
دکھ سے پتلی سکیڑ دیتا ہے
باغباں ، پھول ہار جاتے ہیں
دشت کے تپتے پیڑ دیتا ہے
نخل الفت کا سبز بھی ہو گر
شجر جڑ سے اکھیڑ دیتا ہے
آگ من میں لگا کے حسرت کی
موج دریا کی چھیڑ دیتا ہے
جوگ قسمت میں لکھ کے زاہد کے
دید کے در ہی بھیڑ دیتا ہے
چھید دیتا ہے روح کو اکثر
ہجر شاہد ! ادھیڑ دیتا ہے

26