چاندنی تنہا ، چشم تر تنہا
جھلملاتا فلک ، قمر تنہا
ابتدا تنہا ، انتہا تنہا
عمر کا گزرا یوں سفر تنہا
خوشبو ساری لٹا کے بھی تنہا
ہوں گلابوں کا وہ شجر تنہا
دی نہ آواز ڈوبتے دن کو
دھوپ چھاؤں کا میں پہر تنہا
مٹی تنہائیاں نہ قسمت کی
اک مسافر میں در بدر تنہا
جھیلتا کیسے سختیاں جگ کی
آدمی چھوٹا ہوں میں بشر تنہا
یک دلی تھی مگر کہیں شاہد
مجھ کو جلنا تھا تا سحر تنہا

0
4