چھپائے درد بڑی سوگوار گزری ہے |
بنا تمہارے یوں اپنی بہار گزری ہے |
گلوں نے خود کو نکھارا نہیں ہے خوشبو سے |
چمن پہ دل کے قیامت ہزار گزری ہے |
تلاش کرتے رہے ہیں تھکے تجھے تارے |
سحر بھی چپکے سے ہر اشک بار گزری ہے |
ہے اعتبار کسے ترچھی تیری آنکھوں کا |
کہ دل سے برق ، سر شاخسار گزری ہے |
ہوا ہے حادثہ کیا یہ تری محبت میں |
حیات جیسے سر رہ گزار گزری ہے |
یہ رات کیسی ہے اس شہر کی فصیلوں پر |
اجالا تکتے شب انتظار گزری ہے |
تمہارے روپ میں شاہد یہ چاندنی بھی تو |
لگا کے ہم کو گلے بے قرار گزری ہے |
معلومات