| لٹ سے گئے ہیں لمحے جو ، صبر و قرار کے |
| ہیں نقش کیا کمال کسی شاہکار کے |
| اجڑے ہیں اس طرح سے کہ حاصل سکوں نہیں |
| لگتے ہیں آج دور ہمیں گل ، بہار کے |
| ہر غنچہ دل گرفتہ ہے یادوں میں یار کی |
| چپ ہو گئے ہیں یار کو موسم پکار کے |
| تکتے رہے ہیں رات ستارے بھی دیر تک |
| کیسے گزاریں دن وہ تیرے انتظار کے |
| جلتی رہی ہے خاک شجر کی تلاش میں |
| سائے کہاں رہے ہیں گھنے شاخسار کے |
| آنکھیں بچھی ہیں راہ میں دلبر کی منتظر |
| کچھ حوصلے تو دیکھو کئے اعتبار کے |
| لازم تھا دن بھی آئیں گے شاہد خزاؤں کے |
| ہم نے سنبھال رکھے ہیں پل برگ و بار کے |
معلومات