دیتی ہے در پہ دستکیں مے ناب آج پھر
آتے ہیں یاد ریشم و کم خواب آج پھر
محرومیوں کا اپنی کریں کس سے ہم گلہ
دریا ہیں سامنے کئی گرداب آج پھر
دل چاہتا تھا ، ہوں نہ کبھی ختم الفتیں
من چھیڑتا ہے تار وہ مضراب آج پھر
پہلے ہی لے چکے ہیں محبت میں جان جو
ہے دل انہی کے عشق میں بیتاب آج پھر
ہم عشق کی دکاں میں وفا ڈھونڈتے رہے
پر آستیں میں ہی ملے احباب آج پھر
سر ان کے آستاں پہ جھکاتے ہوئے یونہی
ہم پڑھ رہے ہیں عشق کا ہر باب آج پھر
پلکوں پہ مفلسی میں ٹکے اشک بے خبر
کہتے ہیں خود کو قطرۂ نایاب آج پھر
زنجیر کہہ رہی ہے پڑی پاؤں میں ہمیں
سینے میں جاں گزین ہیں مہتاب آج پھر
شاہد کیا ہے رنگ گل و برگ کا حسیں
تاروں سے بھر گئے ہیں یہ تالاب آج پھر

0
5