| نانا کی عطا ، دیں کی بقا بول رہی ہے |
| شبیر کے سجدے میں وفا بول رہی ہے |
| نیزے پہ چڑھا ہے وہ محمد کا نواسا |
| ڈھلتے ہوئے سورج میں ضیا بول رہی ہے |
| کہتی ہے صداقت ہوئی نازاں یہ جہاں سے |
| چہرے کے تبسم میں رضا بول رہی ہے |
| چھالے ہیں کئی پاؤں میں پر خار ہیں راہیں |
| زینب سے سکینہ کی ردا بول رہی ہے |
| آنکھوں میں ہیں آنسو کہ اندھیرا رہے باقی |
| پاؤں سے اڑی گرد ، حیا بول رہی ہے |
| کر آئی ہے قربان وہ دیکھے ہوئے سپنے |
| ہاتھوں میں رچی رنگ حنا بول رہی ہے |
| ہر لفظ کتابوں کا ہوا گنگ زباں پر |
| طوفاں میں چراغوں کی نوا بول رہی ہے |
| اے کاش کہ مٹ جائے نشاں ظلم کا شاہد |
| دکھ میں گری مخلوق خدا بول رہی ہے |
معلومات