نانا کی عطا ، دیں کی بقا بول رہی ہے
شبیر کے سجدے میں وفا بول رہی ہے
نیزے پہ چڑھا ہے وہ محمد کا نواسا
ڈھلتے ہوئے سورج میں ضیا بول رہی ہے
کہتی ہے صداقت ہوئی نازاں یہ جہاں سے
چہرے کے تبسم میں رضا بول رہی ہے
چھالے ہیں کئی پاؤں میں پر خار ہیں راہیں
زینب سے سکینہ کی ردا بول رہی ہے
آنکھوں میں ہیں آنسو کہ اندھیرا رہے باقی
پاؤں سے اڑی گرد ، حیا بول رہی ہے
کر آئی ہے قربان وہ دیکھے ہوئے سپنے
ہاتھوں میں رچی رنگ حنا بول رہی ہے
ہر لفظ کتابوں کا ہوا گنگ زباں پر
طوفاں میں چراغوں کی نوا بول رہی ہے
اے کاش کہ مٹ جائے نشاں ظلم کا شاہد
دکھ میں گری مخلوق خدا بول رہی ہے

54