دعا میں میری بھی شاید اثر نہیں آیا
شجر پہ میرے جو واپس ثمر نہیں آیا
رہی ہے پیاسی زمیں میری آسماں میرے
گزر گئے کئی موسم ابر نہیں آیا
مچل رہی ہے وفا پہلو میں کہیں تنہا
سلگ رہے ہیں ستارے قمر نہیں آیا
کھلی ہیں ہجر میں ہی منتظر دکھی پلکیں
خبر نہ جب یار کی ، نامہ بر نہیں آیا
ہزار کوس پہ سایہ ترا لگا مجھ کو
مرے بلانے پہ بھی لوٹ کر نہیں آیا
نگر نگر لئے پھرتے ہیں چاک زخموں کو
جہاں میں اپنے کوئی چارہ گر نہیں آیا
کریں تو کس سے کریں تیرا ہم گلہ شاہد
ہمارے کام تو اپنا ہنر نہیں آیا

0
53