| دعا میں میری بھی شاید اثر نہیں آیا |
| شجر پہ میرے جو واپس ثمر نہیں آیا |
| رہی ہے پیاسی زمیں میری آسماں میرے |
| گزر گئے کئی موسم ابر نہیں آیا |
| مچل رہی ہے وفا پہلو میں کہیں تنہا |
| سلگ رہے ہیں ستارے قمر نہیں آیا |
| کھلی ہیں ہجر میں ہی منتظر دکھی پلکیں |
| خبر نہ جب یار کی ، نامہ بر نہیں آیا |
| ہزار کوس پہ سایہ ترا لگا مجھ کو |
| مرے بلانے پہ بھی لوٹ کر نہیں آیا |
| نگر نگر لئے پھرتے ہیں چاک زخموں کو |
| جہاں میں اپنے کوئی چارہ گر نہیں آیا |
| کریں تو کس سے کریں تیرا ہم گلہ شاہد |
| ہمارے کام تو اپنا ہنر نہیں آیا |
معلومات