آنکھ پر نم ہے دکھی ذات جو اب
دور ہوتی ہے وہ برسات جو اب
دکھ سے واقف نہ مسافر نہ سفر
کرب ، غم زدہ ہیں لمحات جو اب
ڈھونڈنے خود کو نکل پڑتا ہوں پھر
گھر نہیں ہوتی ملاقات جو اب
سنگ مجھ کو لئے پھرتی ہے ہوا
ختم ہوتی نہیں ظلمات جو اب
کھو سی جاتی ہے مری صبح کہاں
چھائی رہتی ہے ، پڑی رات جو اب
آگ کا دریا ہے اور خوں کی ندی
ایسے غمگین ہیں حالات جو اب
مضمحل شام لٹا گل کے نگر
ہر گلی میں ہے لگی گھات جو اب
چشم پر آب ہے شاہد ! کہ یہ جگ
غم سمجھتا نہیں، جذبات جو اب

0
3