خون دل کا ہوا ، لفظوں میں روانی آئی |
کاٹ لی عمر تو پھر ، ہم پہ جوانی آئی |
جو گزر رات گئی ہجر کی بھاری غم کی |
بات کہنے کو ہمیں مرثیہ خوانی آئی |
شام افسردہ رہی من بھی رہا بوجھل سا |
یاد جب بھی تری ، تصویر پرانی آئی |
چوم کے سینے سے ہم نے یوں لگایا ماضی |
لوٹ کے جیسے کوئی تیری ، نشانی آئی |
روز ہی چاند میں دیکھیں وہ چمکتی آنکھیں |
روز ہی نیند نہ اک ہم کو سہانی آئی |
اک ملی تشنہ لبی دھوپ کنارے ہم کو |
بہتے دریا میں نہ جو پیاس بجھانی آئی |
دن کا عنوان تجھے رکھا ہمیشہ شاہد |
ہم کو دیکھو نہ یہ دیوار گرانی آئی |
معلومات