زخموں سے جہاں کی دکھن جھانک رہی ہے
پاؤں سے لہو ، آج چبھن جھانک رہی ہے
پوشیدہ ہے سینے میں کہانی کوئی لیکن
صفحات سے رو داد کہن جھانک رہی ہے
گرتے ہوئے اشکوں کی روانی سے ہماری
ہر بوند میں خوشبوئے چمن جھانک رہی ہے
دامن ہے کہیں تار ، ہیں پیوند کہیں پر
گل رنگ سے پر میرے لگن جھانک رہی ہے
اب دور نہیں سب سے بچھڑ جانے کا موسم
لہجے سے مرے دیکھ تھکن جھانک رہی ہے
بے کار کہاں میرا ہے انداز تکلم
اس میں دبی دل کی جلن جھانک رہی ہے
شاہد ! ہے یہ خورشید کی نیت میں خرابی
جو دھوپ کے پردے میں بدن جھانک رہی ہے

0
46