چپ چاپ سمندر ہے ، مرے دل کا نگر بھی
زخموں سے بدن چور ہے ، گھر بار ، جگر بھی
ظاہر ہے حقیقت بھی دلوں پر ، اے ستم گر
گلیوں میں ہے رسوا مرا خورشید ، سحر بھی
زنداں میں اندھیرا ہے تو کیا فکر ہے تجھ کو
ڈوبیں گے ستارے بھی مرے شمس و قمر بھی
کہتا ہوں جسے روشنی میں ، چاند کی دلہن
کھو جائے گی اک دن وہ محبت کی نظر بھی
موسم ہے بہاروں کا یا رت دل پہ خزاں کی
مجھ کو نہیں اپنا پتہ کچھ اس کی خبر بھی
آساں کہاں ہوتا ہے کوئی عشق میں جینا
کٹ جاتی ہے گردن تو کبھی سجدے میں سر بھی
صورت ہے پریشان سی شاہد جو ہماری
غم ہے کہ اجڑ جائے گا پل میں ترا گھر بھی

0
1
26
مناسب ہے۔

0