جہاں میں ہوئےجتنے معمار دوراں |
ترے در سے ہر اک نے دانائی پائی |
دیا تیری رہ پر جلا کر چلے ہیں |
کہ معمار تیری کرے آشنائی |
اسی پر ہے میری دعا میرے مالک |
اسی سے مری آنکھ میں روشنائی |
خدایا ہے اعلی تری کبریائی |
کہ عقل و خرد سے ہوئی ماورائی |
بہانہ تھا موسی کا اور طور کا بھی |
ترے عشق نے تھی تجلی کرائی |
ظفر کو ظفر سے ملا دے خدایا |
بہت ہو چکی اب تو اس کی جدائی |