دلکش حسین وادی ہے جاں سیر میں نے کی
دل خوش ہوا تو چلنے لگا جاں بھی رہ ملی
پانی میں عکس ٹھہرا ہوا اور خوب تر
مسرور ہو رہا ہوں جسے دیکھ دیکھ کر
تاروں کو دل کے چھیڑ کے تازہ ہوا چلی
پتے سے گل سے ٹہنی سے سر ساز سے بھلی
اس سے دل و نگاہ کو پاکیزگی ملی
جس سے مجھے سکون ملا، روشنی ملی
کھڑکی مرے خیال کی پھر اس طرف کھلی
رونا جہاں کا دائمی مسکان عارضی
ہونٹوں پہ خشک پپڑیاں آنکھوں میں یاس ہے
اور پیاس سے نڈھال ماں بچے کے پاس ہے
معصومیت کہ جس کی فرشتہ مثال ہو
مظلومیت یزید کی جیسے یہ چال ہو
لاچار ماں ہے بت بنی بس ایک سوچ پر
پانی کے کاروبار کو غربت کو دیکھ کر
جو مر گئے ہیں ان کو دبانے کا مسئلہ
بے کس کی بے کسی کو چھپانے کا مسئلہ
جو چیختا ہے کرب سے اور بھوک پیاس سے
بت بن کے اک سوال کرے جس سے وہ ملے
اپنوں کو دیکھ دیکھ کے غیروں کو دیکھنا
جن کے لئے کٹھن ہے مصائب کا جھیلنا
رونے کو خوں کو بھوک کو قسمت کو دیکھنا
رہ تکتی آنکھ دیکھنا، صورت کو دیکھنا
ایتھوپیا کو دیکھ کے تھر کو بھی دیکھنا
کیا ہر جگہ ہے ایک سا بچہ یہ سوچنا؟

0
2030