حال دل میں اسے سنا آیا
اپنی قسمت کو آزما آیا
کون کہتا ہے؟ بے سبب آیا
اس کی خواہش تھی میں چلا آیا
کٹنا، گرنا، سنبھل کے ٹکرانا
اس کا شیوہ کہ با وفا آیا
دیکھا تو ایک آنکھ نا بھایا
راہ میں جو بھی دوسرا آیا
روٹھنا تیرا بے سبب تو نہیں
ہر کوئی تو رفو کرا آیا
اس سے ملنے ہی تم چلے آؤ
کشتیاں اپنی جو جلا آیا

2029