حال دل میں اسے سنا آیا |
اپنی قسمت کو آزما آیا |
کون کہتا ہے؟ بے سبب آیا |
اس کی خواہش تھی میں چلا آیا |
کٹنا، گرنا، سنبھل کے ٹکرانا |
اس کا شیوہ کہ با وفا آیا |
دیکھا تو ایک آنکھ نا بھایا |
راہ میں جو بھی دوسرا آیا |
روٹھنا تیرا بے سبب تو نہیں |
ہر کوئی تو رفو کرا آیا |
اس سے ملنے ہی تم چلے آؤ |
کشتیاں اپنی جو جلا آیا |
معلومات