تیری عادت کہ تعاقب میں مرے رہتا ہے
مجھ میں ہمت نہیں نظروں کو ہٹایا جاۓ
وہ جو نظروں سے گریں ان کو سنبھالا جاۓ
یہ کٹھن مرحلہ آۓ تو گزارا جاۓ
تھا سفر آبلہ پا، خشک دہن، تیری راہ
میری خواہش تھی کئی بار٫ تجھے دیکھا جائے
سب کو خطرہ ہے کوئی لوٹ نہ لے رستے میں
اس طرف ایک لگن، چلتے چلو، جایا جائے
تیری خواہش کہ ملے چاہنے والا تیرا
میری خواہش کہ تجھے دیکھتے، دیکھا جائے
میں تو میں تو بھی تو ہے چاہنے والا میرا
میری خواہش ہے تجھے چاہتا، چاہا جاۓ

7
11174
ڈاکٹر صاحب - آپ نے یہ بھی لکھا تھا کہ
"مضمون و خیال کے اعلی معیار کے کلام کو ہی اشاعت کا موقع دیا جائے "

میرا آپ سے سوال ہے کہ آپ اعلیٰ معیار کا کلام کسے کہتے ہیں ؟ اور کیا آپ کی یہ غزل اس میں شُمار کی جا سکتی ہے ؟

السلام علیکم!
محترم ارشد صاحب۔
مثل غالب آپ سے آدھی ملاقات کر تے ہوئے خوشی ہوئی۔ آپ کا کلام بھی پڑھنے کو ملا۔پڑھنے والے کو خوب محظوظ کرتا ہے۔آپ سادہ سی باتوں میں بڑے پتے کی بات کر جاتے ہیں۔
آپ کا سوال کہ آپ اعلیٰ معیار کا کلام کسے کہتے ہیں؟
جناب کیا عرض کروں! بس یوں جانیئے کہ تیر وہی ہے جو نشانے پر لگے۔تیر کوئی سا ہو یا چلانے والا کوئی ہو۔اس سے کچھ غرض نہیں۔ دشمن ٹیم کا کھلاڑی اگر بے مثل کھیل رہا ہو تو عموماً اپنے بھی بے اختیار واہ واہ کی آواز لگا لیتے ہیں۔
جہاں تک سوال ہے میرے کلام کا تو واقعی سادہ سا ہے۔میرے ایک جاننے والے پیارے شاعر کا ایک مقطع ذیل میں لکھا ہے۔ ہو سکتا ہےکوئی بات بن جائے۔
ارشد میں یہ سمجھا تھا گیا دار کا موسم
آیا ہے وہی وقت گزر کر مرے آگے
اپنا خیال رکھیےگا۔


جس طرح بعض علاقوں کے لوگوں کا عرصہ دراز سےوطیرہ ہے۔ کہ وہ جب بھی قہوہ پیتے ہیں تو منہ میں مصری کی ڈلی رکھ لیتے ہیں اور چسکی چسکی پیتے رہتے ہیں۔ مزہ دوبالا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح گزارش ہے اس غزل کو دوبارہ پڑھنے سے پہلے دل میں صبح کے نزدیک رات کے پچھلے پہر اس منظر کی یاد تازہ کر لیں جب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو آواز دیتا ہے۔ کہ "ہے کوئی مجھ سے مانگنے والا کہ وہ مانگے اور میں اس کو عطا کر دوں"۔

ہو سکتا ہے مزہ دوبالا ہو جائے اور بات بن جائے۔


ڈاکٹر صاحب آپ کے الفاظ میں بہت گہرائی ہے ما شاءاللہ

جزاک اللہ ۔ محترم زبیر صاحب

محمود احمد صاحب۔ جزاک اللہ پسندیدگی کا شکریہ۔

محترم شاہ رئیس شمالی۔ پسندیدگی کا شکریہ۔