اک روشنی اندھیرے میں ، کوئی سویر دے
سورج کرن میں اپنی مجھے بھی بکھیر دے
چھٹتا ہے زلف میں ہوا کب قید آپ کی
اب عمر میری ساری قفس میں ادھیڑ دے
الفت ہے نخل آپ کی ، دنیا کے دشت میں
دے کے وفا میں ہجر ، شجر تو اکھیڑ دے
آئینے میں جہان کے دیکھوں میں یار کو
خواب و خیال کو مرے ، ایسے سکیڑ دے
بارش میں بھیگتی ہوئی آنکھوں کے اشک میں
تاروں کو یاد کی کوئی چپ چاپ چھیڑ دے
میں ڈوبنے لگا ہوں کنارے پکار لیں
سایہ مزار کو مرے الفت کا پیڑ دے
ہوتا نہیں ہے کام رفو کا بھی دھیان سے
میری دعا ہے رب سے وہ شاہد ! نبیڑ دے

0
2