دل میں عالم بسائے پھرتے ہیں
پھر بھی دیپک بجھائے پھرتے ہیں
لے نہ کروٹ کوئی بھی چنگاری
اپنا دامن بچائے پھرتے ہیں
چور تھک کے ہوئے گناہوں سے
آنکھ خود سے چرائے پھرتے ہیں
مہرباں در پہ سر تمہارے ہم
دیکھ کب سے جھکائے پھرتے ہیں
مے میسر نہ ہو گی اب غم کو
سب مزا اس کا بھلائے پھرتے ہیں
سانپ اتنے عزیز ہیں شاید
آستیں میں چھپائے پھرتے ہیں
ہم بتائیں تجھے بھی کیا شاہد
خار دنیا سے کھائے پھرتے ہیں

0
71