اک قبا اپنی کتر کے بیٹھے ہیں
شہر میں تیرے سنور کے بیٹھے ہیں
ڈوبنے کا ڈر نہیں ہے دل کو کچھ
راہ میں دیکھو بھنور کے بیٹھے ہیں
کاٹ کے زنجیر پاؤں کی پڑی
سائے میں ٹوٹے شجر کے بیٹھے ہیں
من پہ طاری ہے محبت کا نشہ
آسماں سے ہم اتر کے بیٹھے ہیں
سر پہ سایہ ہے ہمارے تپتا سا
بن کسی دیوار و در کے بیٹھے ہیں
روشنی ہے چاند کی جاں میں بھری
زخم جو لے کے جگر کے بیٹھے ہیں
آئینے میں دیکھ کے شاہد انہیں
فرش پر ہم آہ بھر کے بیٹھے ہیں

0
49