اپنی قدرت کبھی یوں بھی دکھا دیتے ہو
اوس کی بوند جو پھولوں پہ سجا دیتے ہو
حسن پر جن کے محبت کبھی شاعر قرباں
ان گلابوں کو مہکنا بھی سکھا دیتے ہو
دل جلانے کو گلستاں میں کسی بھنورے کا
عشق دل میں کسی بلبل کے جگا دیتے ہو
کھیل الفت کا رچاتے ہو یوں دیوانوں میں
آخری تیر بھی ترکش کا چڑھا دیتے ہو
کہتے ہو کن فیکوں اپنی زباں سے اور پھر
دشت ، دریا کے کناروں سے ملا دیتے ہو
پیار آ جائے جو اپنے ہی کسی بندے پر
بھڑکی تم آگ میں جنت کا مزا دیتے ہو
تیری مختاری و بے پروائی بیاں ہو کیسے
پاؤں میں لا کے ستاروں کو جھکا دیتے ہو
تیری مٹی ہے ، ترا چاک ، تو ہی کوزہ گر
تم اگر چاہو تو ، سرکار بنا دیتے ہو
سوز ، غم ، رنج ، الم سارے مٹا کے شاہد
حوصلہ دیتے ہو جینا بھی سکھا دیتے ہو

0
3