جھمکا کانوں کا ترے جیسے ہلا کرتا ہے
شب کا سناٹا مجھے ایسے ملا کرتا ہے
کیف و بارش کا سماں جس کو کہا کرتے ہیں
رنگ موسم کا بھی ہر اس میں ڈھلا کرتا ہے
ختم ہو جاتی ہے خوابوں کی جہاں پر سرحد
ان اندھیروں میں دیا من کا جلا کرتا ہے
دور صحرا میں بلاتی ہے مجھے باد نسیم
جگ جہاں عشق کا چپ چاپ سجا کرتا ہے
چن کے لاتی ہے وفا یاد کے تنکے سارے
چپکے ، چپکے کوئی گھر جن سے بنا کرتا ہے
کرتے ہیں آبلہ پا میری اگر دل شکنی
حوصلہ در کسی امید کا وا کرتا ہے
تیر اک تیز ترازو ہو کے دل میں شاہد
نام زخموں پہ ترا پھر سے لکھا کرتا ہے

0
43